08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط1
U
غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر1
وہ دونوں دوست تھیں۔ ایک ہی سٹی میں دونوں کے گھر تھے۔ ان کے باپ بھی دوست اور مائیں بھی۔
بہت اتفاق تھا دونوں میں، اسکول میں اکٹھی کالج میں پھر یونی میں بھی ساتھ رہیں۔
وہ دونوں تھیں صفا اور ماریہ۔تھیں دونوں سندر پر عادات الگ الگ۔ صفا شرمیلی اور ماریہ تیز مزاج پر دل کی بہت اچھی تھی۔
کالج سے یونی آ بھی گئیں پر صفا نہ بدلی لڑکوں سے تو بات بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ہمیشہ اسکی طرف سے بھی ماریہ ہی جواب دیتی تھی ۔
لڑکیاں بھی کم ہی تھیں اسکی فرینڈ لسٹ میں بس ماریہ ہی واحد تھی۔ اسی پر صفا مطمین بھی تھی۔
رنگ گورا، درمیانہ قد ،ہمیشہ شلوار قمیض ہی پہنتی۔ چادر پکا لیتی، دوسری طرف ماریہ شلوار قمیض بھی اور پینٹ شرٹ میں وہ زیادہ ایزی فیل کرتی۔
ماریہ جس کے بات کٹے ہویے جو کے کندھے تک آتے تھے، رنگ گورا سانولا مکس ،پر کشش ایسی کہ گوری لڑکیوں میں بھی اتنی نہ تھی۔
کلاس میں دونوں ساتھ ہوتیں ،پڑھائی میں بھی دونوں کافی اچھی تھیں۔ یونی میں ان دو کی جوڑی بہت مشہور تھی۔ سب کی نظروں میں تھیں۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ نیو ایڈمشن ہوا۔ کلاس میں چلتا ہوا ایک لڑکا ان کے پاس سے گزرا۔ تعارف ہوا تو اسنے اپنا نام ضیاء بتایا۔
جب بھی ٹیچر کچھ پوچھتے، ہمیشہ اسکا جواب ٹھیک ہوتا بلکہ زیادہ جلد ہی کلاس کی آدھ لڑکیاں اس پر فدا ہو گئیں پر اس کا مزاج ہی انوکھا تھا۔
نو لفٹ کا بورڈ بس۔ سنجیدہ ،کم بولتا جب بولتا تو کام کی بات بس۔ آنکھیں ہیزل، کشادہ سینہ، بالوں کی چھوٹی كٹنگ، لمبا قد، گندمی رنگت اور نکھرا لباس سب سے منفرد تھا وہ ۔
ہمیشہ تنہا ہی دکھتا ۔یار صفا دیکھ اب بھی وہ تنہا بیٹھا ہوا ہے۔ ہم تو دو ہیں پر وہ ایک اور پھر بھی خوش۔
مجھے لگتا ہے صفا یہ باڈی بلڈنگ بھی کرتا ہے۔ ماریہ کب سے اسے گھوری جا رہی ہو شرم کرو۔ صفا نےماریہ کو شرم دلائی کیوں کہ وہ تھورے فاصلہ پر بیٹھا تھا اگر سن لیتا تو انکی عزت کا فلودہ بن جاتا۔
اچھا چھوڑ اس بات کو آؤ کچھ کھا آہیں۔ چھٹی تک مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔
پیٹو چل۔ ہنس کر کینتین کی طرف چل پڑتی ہیں۔ اور ضیاء کی عقابی نظریں چاروں طرف توجہ دئے ہوتی ہیں۔
فون پر بیپ ہوتی ہے۔ آہستہ سے بولتا ہے یس سر۔ نہیں سر ابھی تک تو نہیں۔ کچھ دن ہیں ان کے آپ اطمینان رکھیں۔ میں جلد رپورٹ کروں گا۔
ہمیں تم پر پورا بھروسہ ہے تب ہی تو تمہارا انتخاب کیا گیا ہے ۔
تھنکس سر۔ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔وہ ایک مان سے بولتا ہے۔
اوکے ٹیک کیر ينگ مین۔
اوکے سر۔ فون بند کر کے ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور ایک عزم سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
چھٹی کے وقت دونوں تھکی ہویی اپنے گھروں کو چلتی ہیں۔ اور شام کے وقت ماریہ جم کی طرف۔ ماریہ تھی ہی نرالی، کبھی کیا کرتی تو کبھی کیا۔ اب اسکا رجحان کچھ ماہ سے جم کی طرف تھا۔
صفا گھر میں ہی رہتی۔ وہ اكلوتی تھی۔ اس کے ابو فوج میں تھے۔ اب تو ریٹائرڈ تھے ۔ماں گھر میں ہی اور ماریہ دو تھے۔ ایک وہ اور ایک اسکا بھائی سیف ۔دونون باتونی، لڑتے بھی اور پیار بھی بہت تھا۔
سیف ماریہ سے چھوٹا تھا۔ ماریہ کو اچھی خاصی پریکٹس ہو چکی تھی۔ ساتھ جوڈو کراٹے بھی اسکا شوق ہر فن مولا کے چکر میں تھی۔اسکی وجہ کے اسکو گھر سے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔
باپ کاروبار کرتے اور ماں گھر میں ہی ہوتی ہیں پر کھلے دماغ کی۔
صفا کی ماں اسکو سمجهاتی ہیں کے بیٹا آج کا زمانہ دیکھا ہے ؟یہاں سادگی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ بیٹا خود پر دھیان دیا کرو ۔میں تو تمہارے مستقبل کو لے کر پریشان ہو جاتی ہوں جب سوچتی ہوں تو۔
بس ماں، میں جیسی ہوں اگر اسی طرح کوئی لے جائے تو ٹھیک ورنہ مجہے نہیں بننا ایسا جیسا میں دیکھتی ہوں اور جیسا چل رہا ہے، سب سوچ کر صفا کو غصہ آ جاتا ہے جو وہ یونی میں دیکھتی تھی۔ لڑکے اور لڑکیاں کس طرح گھومتے پھرتے، بات کرتے ہیں ۔اف میرے خدا صفا نے دل سے اہ بھری۔
گڈ مارننگ صفا، صبح دونوں یونی میں مل رہی ہوتی ہیں۔ کیسی ہو؟
ٹھیک ۔ماریہ چلو اب کلاس میں پھر بہت اہم بات بتاؤں گی۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگتی ہے۔
آج خوش لگ رہی ہو، خاص بات لگتی ہے۔صفا تجسس سے پوچھتی ہے۔
یار ہے بھی خاص، ماریہ خوش ہو رہی ہوتی ہے۔
اتنے مین ٹیچر آ جاتے ہیں یوں لیکچر میں لکھتے سمجھتے، بریک ٹائم ہو جاتا ہے۔
چلو آؤ کچھ کھاتے ہیں۔ صفا آج شام میری پریکتیس ہے۔ ٹیچر دیکھے گا میرا جائزہ۔
تو بھی آنا یار پلیز مجہے اچھا لگے گا اسکو پر جوش ہو کر کہتی ہے ۔
تمہیں پتا ہے مجہے اجازت نہیں ملے گی، ویسے بھی میرا کیا کام ماریہ ۔
اچھا چل ٹھیک ہے ،سوچ کر کہتی ہے پر آنا ہے کبھی۔ سن رہی ہو نا؟
ہاں بابا ٹھیک ہے۔صفا پیار سے کہتی ہے۔ دونوں باتیں کر رہی ہوتیں ہیں کے کچھ بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔
دونوں پریشان ہوتی ہیں۔
آؤ باہر جا کر دیکھتے ہیں کیا ہوا ہے ؟ماریہ پریشانی مین صفا کا ہاتھ پکڑ کر بھاگتی ہے۔ ہاں چلیں باہر۔صفا کو ب کچھ عجیب سا لگ رہا ہوتا ہے۔
ایک لڑکی بیہوش ہوتی ہے۔ اسکو ہسپتال لے کر جا رہا ہوتا ہے۔
آج پھر۔۔۔۔ کب تک یہ سب چلتا رہے گا۔ کون کر رہے ہیں یہ سب اور پتا نہیں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
اسی لئے تو کہتی ہوں صفا کہ لڑکی کو مظبوط ہونا چاہیے کہ ہر مشکل کا مقابلہ کر سکے ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی۔
ہاں کہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ صفا اپنے خیالوں میں بیٹھی بولتی ہے۔
پریشان نا ہو ٹھیک ہو جائے گا سب۔ خدا کرے دعا نکلتی ہے دونوں کے منہ سے آمین۔
ضیاء کشمیر کا رہنے والا ایک پٹھان غیرت مند لڑکا جس کے والد زمین دار ہیں۔ جن کا نام ضرار اور اسکی دو بہنیں ہیں ۔
اس کے باپ نے بہت محنت سے پڑھایا ۔
انکا خواب تھا اپنے بیٹا کو آعلیٰ عہدہ پر دیکھنے کا، اس قابل بن جائے کہ اپنے علاقہ اور ملک کے لئے کچھ کر دکھاے اور انکا نام روشن ہو ۔اس لئے شروع سے ہی انہوں نے اپنے بیٹے کے دل میں احساس ذمہ داری پیدا کی۔
ضیاء اپنی سمجھ اور باپ کی نصیحت کی وجہ سے فرماں بردار ثابت ہوا۔
سٹی مین پڑھائی کی۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر وہ دیکھتے ہی دیکھتے کڑیل جوان مرد کی صورت اختیار کر گیا پھر امتحان پاس کر کے پولیس کے شعبہ میں آعلیٰ عہدہ پر پوھنچ گیا۔
ایمان داری کی وجہ سے قابل عزت حیثیت کا حآ مل تھا۔ دو سال سے جاب میں تھا ۔
جس مشن میں جاتا، کامياب واپس آتا ۔
اس بار بھی یہ مشن بہت اہم تھا۔ جب آفیسرز کو ڈرگز کا پتا لگا انہوں نے سوچا پہلی سیڑھی ہی انکی کالج اور یونی ہوتے ہیں تب ان آفیسرز نے گروپ بناے۔
انکو گروپس میں الگ الگ جگہ پہ بھیجا گیا تو جی ضیاء صاحب یہاں ایک سٹوڈنٹ کے طور پر تھے۔
آج پہلا واقعہ سامنے تھا۔ جب پوچھا گیا تو تیسرا تھا ۔
مجھے اب زیادہ چوکنآ رہنے کی ضرورت ہے ۔
اب انہوں نے حرکت سٹارٹ کردی۔
لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔
آج اسے سمجھ لگی تھی اور یہ مجبوری بھی تھی ورنہ وہ کہاں لڑکیوں پر توجہ دیتا تھا۔
زین سن ہمیں اب نیا طریقہ کرنا ہوگا ایسا کے خود سب چل کر آہیں اور ہمیں بھی نہ محنت کرنا پڑے اور نہ ڈر ہو زیادہ۔
اسلم دھیان سے اسکو سری پلاننگ بتاتا چلا گیا۔ اا
وہ یار مان گیا تجھے۔
اوکے تو پھر کل سے سٹارٹ۔۔۔
ہاں بھائی اب لیٹ کیاکرنا ۔ ہمیں تو پیسے سے مطلب ہے یار۔
چل اٹھ شکار ڈھونڈتے ہیں، پہلے سادہ اور معصوم کو ٹارگٹ کے طور پر ۔
سمجھ رہا ہے نا تو زین؟
ہاں ہاں یار بے فکر رہ۔ چھٹی ھویی۔
ماریہ رک میں واشروم سے ہو لوں۔صفا نے منت سے ماریہ کو بولا۔
ہاں ٹھیک جلدی آنا۔
صفا جلدی سے جاتی ہے واپسی پر ایک لڑکی سے ٹکر ہوتی ہے اسی دوران کچھ چبھتا ہے صفا کو۔
درد سے بازو پکڑ لیتی ہے۔
یہ کیا تھا ؟صفا سوچتی ہے اتنے میں وہ لڑکی سوری کہتی ہے۔
کوئی بات نہیں۔ صفا پریشانی میں بولتی ہے پر سمجھ نہیں آتی اسکو کچھ۔
پھر جلدی سے باہر آتی ہے۔
مدہوش آتی صفا سے ماریہ پوچھتی ہے کیا ہوا؟
کچھ نہیں بس سر چکرا رہا ہے ۔
گھر جا رہے ہیں آرام کرنا اب ۔
شائد آج زیادہ دماغ کھپا لیا تم نے ۔ماریہ پیار سے اسکو پاس بیٹھا کر ہاتھ پکڑ کر کہتی ہے ۔
ہاں ٹھیک صفا اس کے ساتھ کو اپنی مضبوطی محسوس کر کے کہتی ہے۔
صفا ماریہ کے ساتھ ہی آتی جاتی تھی۔
اچھا صفا تیرا اسٹاپ تو آ گیا کل ملیں گے سی یو۔ ہم ۔۔۔۔
صفا خدا حافظ کہ کر گھر کے اندر۔
پڑھنے تو آیا نہیں تھا ضیاء اس لئے زیادہ گھومتا نظر آتا اس طرح کے کسی کو شک بھی نہ ہو اور کام بھی ہو جائے پر اسکو یہ پتا نہیں تھا انکا کام تو شروع بھی ہو چکا تھا۔